انسانی خون کے پیاسے مچھروں کا ممکنہ علاج
انسانی خون کے پیاسے مچھروں کا ممکنہ علاج
08 فروری 2019
اس پوسٹ کو شیئر کریں Email اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر اس پوسٹ کو شیئر کریں وٹس ایپ
Image copyrightALEXANDER L WILD
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ وہ شاید انسانی خون چوسنے والے مچھروں کو انسانی خوراک پر مبنی دوا دے کر ان کی اس عادت کو کم کر سکتے ہیں۔
امریکی محققین کا کہنا ہے کہ اس سے انھیں اپنا پیٹ بھرا ہوا محسوس ہوگا اور یہ انھیں کسی کو کاٹنے سے دور رکھے گی۔
محققین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کی مدد سے ذیکا وائرس، پیلے بخار اور ملیریا سے بچاؤ ممکن ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھیے
زیکا پر قابو پانے کے لیے مچھروں کی فوج
ملیریا کی روک تھام کے لیے چار ارب ڈالر کا فنڈ
تاہم سائنسی جریدے ’سیل‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ یہ ریسرچ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔
مادہ مچھروں کو انسانی خوراک پر مبنی دوا دے کر انسانی خون سے دور رکھنے کی تحقیق کرنے والی راکر فیلر یونیورسٹی سے منسلک ٹیم نے اپنے تجربات مچھروں کی ’ایڈیس ایجپٹائی‘ قسم پر کیے۔
یہ مادہ مچھروں کی وہ واحد قسم ہے جو انسانوں کو کاٹتی ہے کیونکہ انھیں انڈے دینے کے لیے انسانوں کے خون میں موجود پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک بار جب ان مادہ مچھروں کو انسانی پروٹین جیسی خوراک دے دی جاتی ہے تو ان میں انسانی خون کے لیے کشش ختم ہو جاتی ہے اور وہ کئی دنوں تک کسی انسان کو کاٹے بغیر رہ سکتے ہیں۔
’بھوک نہیں ہو گی‘
جب ماہرین نے مچھروں کو مائع صورت میں ایک خوراک دی، تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مچھروں کی بھوک مٹ گئی، بالکل ایسے ہی جیسے کھانے کے بعد انسانوں کی بھوک مٹ جاتی ہے۔
اس کی پیمائش کرنے کے لیے ماہرین نے رپورٹ کی مصنفہ لورا ڈوال کی بدبودار جرابیں مچھروں کے سامنے لٹکائیں، لیکن مچھروں نے ان میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
Image copyrightGETTY IMAGES
اس کے بعد ٹیم نے ان مچھروں کے جسم کے اندر موجود ’نیورو ریسیپٹرز‘ کا جائزہ لیا کہ آیا پروٹین کی وہ کون سی خاص قسم ہے جو مچھروں کی بھوک ختم کر دیتی ہے۔
یہ معلوم ہونے کے بعد کہ اس پروٹین کی افزائش مچھر کے جسم کے کس حصے میں ہوتی ہے، ماہرین کے لیے یہ معلوم کرنا آسان ہو گیا کہ ان میں بھوک کے احساس کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔
انسانی خوراک کو بطور دوا استعمال کرنے کے علاوہ ماہرین نے کچھ دیگر مرکبات کو بھی دیکھا جو کہ جنگلی مچھروں کے لیے استعمال نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ ان کی بھوک کی خواہش کو مٹا بھی سکتے ہیں اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے الٹ ہو جائے۔
ماہرین کی ٹیم کا کہنا ہے کہ ان کو حاصل ہونے والی معلومات کے مستقبل کی تحقیق پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
اس شعبے کی ماہر لیزلی وشل کا کہنا ہے کہ ہم بیماریاں پھیلانے والے حشرات کے بارے میں مختلف آراء پر بات کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کیڑے مار دوائیاں ناکام ہو رہی ہیں اور ہم اس کے مقابلے میں بہتر متبادل نہیں بنا سکتے اور ابھی ہمارے پاس ایسی ویکسین بھی نہیں ہے جو کہ مچھروں سے پھیلنے والی بیماریوں کے خلاف مددگار ہو۔
لورا ڈوال کہتی ہیں کہ مچھر کی بھوک کو تحقیق میں مرکز بنانا ایک اچھا خیال تھا کیونکہ یہ ایک قدرتی امر ہے لیکن اس کا مقصد یہ نہیں کہ یہ اسے ختم کرنے کی کوشش ہے کیونکہ استعمال ہونے والی دوا کے اثرات دیرپا نہیں ہوں گے۔
وہ کہتی ہیں کہ ابھی ہم اس دوا کو فیلڈ میں استعمال کرنے سے بہت قدم پیچھے ہیں اور ہمیں ہمیشہ کچھ اضافی حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسی بارے میں
Comments
Post a Comment