ہمارے غیرملکی کرکٹرز نے اکثر ہمیں دھوکہ دیا: ندیم عمر
پاکستان سپر لیگ میں شریک ٹیموں میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز وہ ٹیم ہے جسے غیرملکی کرکٹرز کے پاکستان نہ آنے کا سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
سنہ 2017 میں جب کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم فائنل میں پہنچی تھی تو اس کے چار اہم کرکٹرز پاکستان آنے کے لیے تیار نہیں تھے جن میں کیون پیٹرسن قابل ذکر تھے۔
گذشتہ سال بھی کیون پیٹرسن اور شین واٹسن نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا تھا اور اس بار بھی شین واٹسن کے پاکستان آکر کھیلنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
پی ایس ایل 4 کے بارے میں مزید پڑھیے!
پی ایس ایل 4: کس ٹیم کے امکانات کتنے روشن؟
پی ایس ایل میں کھلاڑیوں کی بدلتی ٹیمیں
پی ایس ایل: ’دل کہتا تھا اے بی ڈی ویلیئرز‘
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے سربراہ ندیم عمر نے اس تمام صورتحال کا بڑی ہمت سے مقابلہ کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی کرکٹ کے بہترین مفاد میں کڑوا گھونٹ پینا پڑا لیکن اس بار وہ اپنےننانوے فیصد غیرملکی کرکٹرز کے پاکستان آنے پر خوش ہیں۔
ندیم عمر نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی ٹیم اپنے اہم کھلاڑیوں کے بغیر ٹائٹل جیتنے کا تصور نہیں کرسکتی۔
’مانچسٹریونائیٹڈ سے چار اہم کھلاڑی نکال لیں اورآپ کہیں کہ وہ ٹائٹل جیت لے گی یہ بہت مشکل ہے۔ یہی کچھ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ساتھ ہوا تھا جب ہم نے اپنے چار اہم کھلاڑیوں کے بغیر لاہور میں فائنل کھیلا تھا۔‘
ندیم عمر کہتے ہیں کہ ’ہم نے نجم سیٹھی صاحب کو کہا تھا کہ کوئی بھی اس طرح کی قربانی نہیں دے سکتا کہ آپ ٹائٹل جیتنے جا رہے ہوں اور اس کے پاس بہترین کھلاڑی نہ ہوں۔ سیٹھی صاحب کا کہنا تھا کہ آپ یہ قوم کے لیے کر دیں۔ ہم نے ایسا ہی کیا لیکن ہم سے کہا گیا تھا کہ 50 کھلاڑیوں کے پول میں سے آپ اپنے پانچ کھلاڑی منتخب کریں گے لیکن وہ پول سکڑ کر صرف سات کرکٹرز تک رہ گیا تھا۔‘
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے سربراہ اس بار کافی مطمئن دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے کھلاڑیوں کی اکثریت پاکستان میں کھیلنے کے لیے تیار ہے۔
’ہمارے غیرملکی کرکٹرز نے اکثر ہمیں دھوکہ دے دیا لیکن پاکستان میں حالات کے بہتر ہونے کا اب غیرملکی کرکٹرز کو بھی اندازہ ہوگیا ہے۔ اس بار ہمارے ننانوے فیصد کرکٹرز پاکستان آنے کے لیے تیار ہیں۔ شین واٹسن کو ہم قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اگر وہ نہیں آئے تو ہمارے پاس ان کے متبادل کے طور پر ڈوئن سمتھ موجود ہیں۔ ان کے علاوہ سنیل نارائن، رائلے روسو، آسٹریلوی لیگ سپنر فواد احمد اور ڈوئن براوو پاکستان آئیں گے۔‘
ندیم عمر اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ صرف انہی کرکٹرز کو لیگ میں شامل کیا جائے جو پاکستان آنے کے لیے تیار ہوں۔
’یہ نکتہ کافی زیربحث رہا ہے لیکن اگر آپ اس لیگ کو صرف انہی کرکٹرز تک محدود کر دیں گے جو پاکستان آکر کھیلیں تو اس سے اس لیگ کی چمک دمک ماند پڑجائے گی۔ ہمیں توازن دیکھنا پڑتا ہے اور ہمارے لیے پہلی ترجیح پہلی چار ٹیموں میں کوالیفائی کرنا ہوتا ہے۔‘
ندیم عمر کہتے ہیں کہ پاکستان سپر لیگ کا مکمل طور پر پاکستان میں انعقاد بہت ضروری ہے۔
’فرنچائزز کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ٹکٹوں کی فروخت ہے۔ کراچی میں صرف ایک دن کی ٹکٹوں کی فروخت دبئی کے 20سے 22 دنوں کی ٹکٹوں کی آمدنی کے برابر تھی۔ خالی سٹیڈیم میں میچ کھیلنے کا مزا نہیں ہے۔ کیون پیٹرسن مجھ سے کہنے لگے کہ میں اپنی آخری اننگز کھیل رہا تھا اور تماشائی نہیں تھے۔ ہم نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین سے اپنی مشکلات بیان کی ہیں اور انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ بورڈ کا حصہ کم کرکے فرنچائزز کو دیں گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’پی ایس ایل کے سات پارٹنرز ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک کمائے اور چھ نقصان اٹھائیں۔ پورا پاکستان انجوائے کرے۔ سب اس کا کریڈٹ لیں اور جنھوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں وہ نقصان میں رہیں۔‘
Comments
Post a Comment