بالاکوٹ: انڈین طیارے پاکستانی طیاروں سے کیسے بچ گئے
حسین عسکریبی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
27 فروری 2019
اس پوسٹ کو شیئر کریں Email اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر اس پوسٹ کو شیئر کریں وٹس ایپ
Image copyrightAFP
Image captionپاکستانی ایف 16 طیارے
منگل کو پاکستانی فوج نے تصدیق کی کہ انڈیا کے جنگی طیاروں نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور پاکستانی طیاروں کے فضا میں آنے کے بعد وہ جلدبازی میں اپنے بم گرا کر واپس چلے گئے۔
دوسری جانب انڈیا نے کہا کہ اس نے اپنی ایک فضائی کارروائی میں بالاکوٹ کے علاقے میں کالعدم شدت پسند تنظیم جیشِ محمد کے کیمپ کو نشانہ بنایا ہے۔ اِسی تناظر میں ہم نے کچھ بنیادی سوالات کے جوابات کے لیے پاکستانی ایئرفورس کے سابق اہلکار ایئر مارشل مسعود اختر سے بات کی۔
بالاکوٹ پر ہونے والے حملے کے بارے میں مزید پڑہھیے
’انڈین طیارے تین منٹ تک پاکستان میں رہے‘
ایل او سی پر کشیدگی میں اضافہ، ’انڈین فائرنگ سے چار ہلاک‘
انڈیا کا پاکستان کی حدود میں حملہ، مفروضے اور حقائق
جیشِ کیمپ پر حملے کا دعویٰ، پاکستان کا انکار
مروجہ طریقہ کار یا ایس او پی کیا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ایئر مارشل (ریٹائرڈ) مسعود اختر کا کہنا تھا کہ کشیدگی کے دنوں میں تو چوبیس گھنٹے کامبیٹ ایئر پیٹرولنگ ہوتی ہے یعنی میزائیلوں سے لیس لڑاکا طیارے مسلسل گشت کرتے ہیں۔
اِس دوران کوئی بھی طیارہ ملکی فضائی حدود سے پچاس کلومیٹر قریب آتا ہے تو اُس کا سامنا کرنے کے لیے پیٹرولنگ یا گشت کرنے والے طیارے تیار ہو جاتے ہیں اور غیر ملکی طیارے کو اپنی فضائی حدود میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔ امن کے دنوں میں اگر کوئی غیر ملکی طیارہ 10 کلومیٹر تک اندر آ جائے تو اِسے مارا نہیں جاتا بلکہ وارننگ دے کر واپس جانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
ردِعمل کے لیے وقت کتنا ہوتا ہے؟
Image copyrightGETTY IMAGES
Image captionپاکستان کا جے ایف 17 طیارہ
اگر کشیدگی ہے اور طیارے پیٹرولنگ کر رہے ہیں تو جوابی کارروائی میں کوئی وقت نہیں لگتا۔ اگر طیارہ زمین پر ہے اور پائلٹ کاک پِٹ میں موجود ہے تو طیارہ اگلے تین منٹ میں فضا میں ہو گا۔
اگر پائلٹ ایئر ڈیفینس الرٹ ہٹ میں موجود ہے تو وہاں سے طیارے تک پہنچنے، کاک پِٹ میں بیٹھنے اور فضا میں بلند ہونے میں پانچ منٹ لگتے ہیں۔
گذشتہ روز ہونے والے واقعے میں پاکستانی طیارے پہلے ہی کامبیٹ ایئر پیٹرولنگ کر رہے تھے اِس لیے جیسے ہی انھیں پتہ چلا اور پاکستانی کامبیٹ کنٹرولرز نے انھیں سمت بتائی وہ وہاں پہنچ گئے۔
ایئر مارشل ریٹائرڈ مسعود اختر کا کہنا ہے کہ شاید دونوں جانب سے ہدایات دی گئیں تھیں کہ براہ راست جھڑپ نہیں کرنی۔ اِسی لیے پاکستانی طیاروں نے انھیں مار گرانے کی کوشش کرنے کے بجائے واپس جانے پر مجبور کیا جبکہ انڈین طیاروں نے بھی پاکستانی طیاروں کا سامنا نہیں کیا، جلدی سے پے لوڈ گرایا اور تیزی سے وہاں سے نکل گئے۔
زمینی اور فضائی فاصلہ؟
Image copyrightGOOGLE
Image captionجابہ کا مظفرآباد سے زمینی فاصلہ لگ بھگ 38 کلو میٹر ہے
اگر انڈین طیاروں نے بالا کوٹ کے قریب بم گرائے ہیں تو اِس کا مطلب ہے کہ وہ تقریباً 40 کلومیٹر پاکستانی حدود کے اندر آئے تھے۔ لڑاکا طیارے 40 کلومیٹر کا فاصلہ چار سے پانچ منٹ میں طے کر لیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی ایئر فورسز کے ردِعمل کا وقت بھی آٹھ منٹ یا اس سے زیادہ ہے۔
پے لوڈ کیا ہوتا ہے؟
طیارے کے پروں کے نیچے جو بھی چیز لگی ہوتی ہے وہ پے لوڈ کہلاتی ہے۔ مثلاً میزائیل، بم اور راکٹ، یہ سب پے لوڈ میں شامل ہیں۔ طیارے کی رفتار بڑھانے کے لیے طیارے کو ہلکا کرنا پڑتا ہے تا کہ تیزی سے کسی جگہ سے نکلا جا سکے اور پیچھے سے آنے والے طیارے آپ کو مار نہ سکیں۔ حالیہ واقعے میں انڈین طیاروں نے اِسی لیے پے لوڈ کیا یعنی اپنا گولہ بارود گرا کر اپنا وزن کم کیا اور تیزی سے وہاں سے نکل گئے۔
ایف 16 بمقابلہ میراج:
انڈین ایئر فورس کی جانب سے پاکستانی حدود میں آ کر بم گرانے کے واقعے میں انڈیا کی جانب سے میراج طیارے استعمال کیے گئے جبکہ پاکستان کے پاس اپنے دفاع کے لیے ایف سولہ اور جے ایف سترہ لڑاکا طیارے تھے۔
ایئر مارشل مسعود اختر کے مطابق ایف سولہ بلاک 52 میراج سے بہتر طیارہ ہے جبکہ جے ایف سترہ تھنڈر اور ایف سولہ کے بعض دوسرے ورژن میراج برابر کے ہیں۔
مسعود اختر کا کہنا ہے کہ انڈیا نے اپنے میراج طیاروں کو فرانس سے اپ گریڈ کروایا ہے لیکن اس کے باوجود ایف سولہ کو ہتھیاروں اور ریڈار کے لحاظ سے میراج پر فوقیت حاصل ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جدید تھرڈ جنریشن طیاروں میں نائن جی کی صلاحیت ہوتی ہے۔
Image copyrightGETTY IMAGES
Image captionانڈین میراج 2000 طیارے جو اس حملے میں استعمال کیے گئے تھے
نائن جی کا مطلب ہے کہ جب طیارہ موڑ کاٹتا ہے تو اس کا وزن نو گنا تک بڑھ سکتا ہے۔ دونوں طیاروں کے پاس نائن جی صلاحیت ہے اور بی وی آر یعنی بیونڈ ویژول رینج یعنی نظر سے دور ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائیل بھی دونوں کے پاس ایک طرح کے ہیں۔
رولز آف انگیجمنٹ (جنگ کے قوائد)
ایئر مارشل مسعود اختر کے مطابق حالیہ واقعے میں دونوں طرف سے رولز آف انگیجمنٹ یہ تھے کہ اگر مارنا پڑ جائے تو مار دو لیکن کوشش یہ ہوگی کہ جھڑپ سے بچنا ہے تاکہ جنگ بڑھ نہ جائے۔
پاکستان کی جانب سے کوشش تھی کہ انڈین طیاروں کو روکا جائے اور دھمکایا جائے تاکہ وہ بھاگ جائیں۔ مسعود اختر کے مطابق انڈین پائلٹوں کو بھی کہا گیا ہوگا کہ آپ نے دشمن طیارے کو تلاش کر کے لڑنا نہیں ہے اور جلدی نکلنا ہے۔ انھوں نے بھی بس یہ دکھانا ہی تھا کہ انھوں نے سرجیکل سٹرائیک کی ہے۔
Image copyrightAFP
Image captionبالاکوٹ میں وہ مقام جہاں پر انڈین طیاروں نے پے لوڈ گرایا
ایئر مارشل مسعود اختر کے بقول دونوں جانب سے جنگ کو بڑھانا مقصد نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب زمینی سرحد پر سپاہی لڑتے ہیں تو اُس سے ایک بڑی جنگ چھڑنے کا امکان کم ہوتا ہے لیکن اگر طیارہ کئی میل اندر گرا دیا جائے تو حالات کافی خراب ہو سکتے ہیں۔
عام حالات میں جنگ کے قوائد مختلف ہوتے ہیں اور وہ یہ کہ اگر کسی غیرملکی طیارے کو گرانا ہے تو اِس طرح کے اُس کا ملبہ اپنی سرحد کے 10 کلومیٹر اندر گرے۔ اِس کی وجہ بتاتے ہوئے مسعود اختر کا کہنا تھا اِس سے یہ ثابت ہوگا کہ دوسروں نے حدود کی خلاف ورزی کی تھی۔ اگر ملبہ پڑوسی ملک میں پایا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ نے اندر گھس کر کارروائی کی ہے۔
Comments
Post a Comment